بھارت: توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاج پر گرفتار مسلمان سماجی کارکن کا گھر مسمار

IQNA

بھارت: توہین آمیز ریمارکس کے خلاف احتجاج پر گرفتار مسلمان سماجی کارکن کا گھر مسمار

20:15 - June 12, 2022
خبر کا کوڈ: 3512049
اتر پردیش کے پریاگراج، سابقہ الہٰ آباد میں شہری انتظامیہ نے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے کارکن جاوید محمد کے گھر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسمار کرنا شروع کر دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق اتوار کے روز ہی پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے جاوید محمد کے اہل خانہ کو صبح 11 بجے تک گھر خالی کرنے کو کہا تھا۔

پریاگراج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے 10 مئی کو جاوید محمد کو شوکاز نوٹس دیا تھا اور انہیں 24 مئی کو سماعت کے لیے پیش ہونے کا کہا تھا، تاہم، جاوید محمد نے اس نوٹس کی تعمیل نہیں کی۔

جاوید محمد کی چھوٹی بیٹی صومیہ فاطمہ نے اسکرول۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے خاندان کو ان کے گھر کے مبینہ غیر قانونی ہونے کے بارے میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، جاوید محمد کے وکیل نے بھی گھر کے انہدام کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا اور دعویٰ کیا کہ یہ گھر ان کی اہلیہ کی ملکیت ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے جاری حکم نامے میں ان کی اہلیہ کا نام تک نہیں لیا گیا۔

ہفتہ کے روز پولیس نے جاوید محمد کو مبینہ طور پر پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو رہنماؤں کے توہین آمیز ریمارکس کے خلاف پرتشدد مظاہرے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

صومیہ فاطمہ نے اسکرول۔ان کو بتایا کہ انہیں اور ان کی والدہ کو بھی ہفتہ کے روز حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں اتوار کی صبح رہا کیا گیا۔

اگرچہ ہندوستانی قانون کے تحت کسی جرم کے الزام میں مجرم کے گھر کو منہدم کرنے کی کوئی دفعات نہیں ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں میں باقاعدگی سے اس طرز عمل کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

'پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا'

جاوید محمد کی بیٹی صومیہ فاطمہ نے اسکرول۔ان کو مزید بتایا کہ انتظامیہ نے گھر کے غیر قانونی ہونے کے بارے میں پہلے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا تھا، یہ پہلا نوٹس ہے جو ہمیں کل رات یعنی بررز ہفتہ ملا، ایک دن پہلے تک کسی نے بھی ہم سے اس بارے میں بات نہیں کی، اگر ہماری جائیداد واقعی غیر قانونی تھی تو انہوں نے ہمیں یہ نوٹس پہلے کیوں نہیں دیے، یہ ہمارے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل وقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گستاخانہ بیان کے خلاف بھارت میں پرتشدد مظاہرے، 2 افراد جاں بحق

صومیہ فاطمہ نے مزید بتایا کہ انہیں اور ان کی والدہ 50 سالہ پروین فاطمہ کو پریاگراج پولیس نے اتوار کی رات تقریباً 12.30 بجے حراست میں لیا اور شہر کے سول لائنز خاتون پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، انہوں نے ہم سے عجیب سوالات کیے جیسے کہ ہم گھر میں کس قسم کی گفتگو کرتے ہیں اور ہم کس قسم کی پوسٹس شیئر کرتے ہیں، وہ ہم سے کچھ متنازع قسم کی باتیں نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

صومیہ فاطمہ نے مزید بتایا کہ جب خواتین پولیس اہلکار ان سے پوچھ کچھ کر رہی تھیں تو اس دوران ایک مرد افسر نے ان کی والدہ کو گالی دی اور کہا کہ ان سے 'سچ اگلوانے' کے لیے طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

پولیس نے صومیہ فاطمہ اور ان کی والدہ پروین فاطمہ کو بھی گھر فون کرکے گھر خالی کرنے کو کہا، اتوار کو رہا ہونے کے بعد صومیہ فاطمہ اور پروین فاطمہ کو ان کے اپنے گھر کے بجائے ان کے رشتہ داروں کے گھر لے جایا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ یہ جگہ نہ چھوڑیں، انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارے خاندان کو ابھی تک ان کے والد کے ٹھکانے کے بارے میں نہیں معلوم۔

گھر مسمار کرنے کے خلاف درخواست دائر

جاوید محمد کے خاندان کے وکیل کمال کرشن رائے رائے نے اسکرول۔ان کو بتایا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں گھر کو مسمار کرنے کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے ایک پٹیشن دائر کردی گئی ہے۔

وکیل کمال کرشن رائے رائے ار دیگر وکلا کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مکان جاوید محمد کی اہلیہ پروین فاطمہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا، پریاگراج شہری انتظامیہ کے دستاویزات میں بھی پرون فاطمہ کا نام درج تھا۔

نظرات بینندگان
captcha